''پتھر کی زباں'' کی شاعرہ نے
اک محفل شعر و شاعری میں
جب نظم سناتے مجھ کو دیکھا
کچھ سوچ کے دل میں مسکرائی
جب میز پر ہم ملے تو اس نے
بڑھ کر مرے ہاتھ ایسے تھامے
جیسے مجھے کھوجتی ہو کب سے
پھر مجھ سے کہا کہ آج، پروینؔ!
جب شعر سناتے تم کو دیکھا
میں خود کو بہت ہی یاد آئی
وہ وقت کہ جب تمہاری صورت
میں بھی یوں ہی شعر کہہ رہی تھی
لکھتی تھی اسی طرح کی نظمیں
پر اب تو وہ ساری نظمیں غزلیں
گزرے ہوئے خواب کی ہیں باتیں!
میں سب کو ڈس اون کر چکی ہوں!
''پتھر کی زباں'' کی شاعرہ کے
چنبیلی سے نرم ہاتھ تھامے
''خوشبو'' کی صفیر سوچتی تھی
در پیش ہواؤں کے سفر میں
پل پل کی رفیق راہ میرے
اندر کی یہ سادہ لوح ایلسؔ
حیرت کی جمیل وادیوں سے
وحشت کے مہیب جنگلوں میں
آئے گی تو اس کا پھول لہجہ
کیا جب بھی صبا نفس رہے گا!؟
وہ خود کو ڈس اون کر سکے گی!؟
نظم
مسئلہ
پروین شاکر