اداس یادوں کی مضمحل رات بیت بھی جا
کہ میری آنکھوں میں اب لہو ہے نہ خواب کوئی
میں سب دئیے طاق آرزو کے بجھا چکا ہوں
تو ہی بتا اب
کہ مرگ مہتاب و خون انجم پہ نذر کیا دوں
نہ میرا ماضی نہ میرا فردا
بکھر گئی تھی جو زلف کب کی سنور چکی ہے
اور آنے والی سحر بھی آ کر گزر چکی ہے
اداس یادوں کی مضمحل رات بیت بھی جا!
نظم
مرثیہ
عبید اللہ علیم