شام رخصت ہو چکی تھی
احساس کے تلووں کو سہلا کر
کتنا سکون ملا تھا
تب ننگے پاؤں
گھاس پر چلنے کو بڑا دل چاہا
کہ اچانک
رات آئی
سیاہ کفن میں اپنا منہ چھپائے
اور
بے ترتیب شب و روز کے درمیان
ٹنگی ہوئی الگنی پر
مجبور زندگی
اپنے کرتب دکھلانے لگی
اور رات
جس طرح
آسمان پر آوارہ بادلوں کے ٹکڑے
چاندنی سے اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے
شرمندہ ہو جاتے ہیں
رات اسی طرح
میرے جسم کے نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی
شرمندہ ہو گئی
شام رخصت ہو چکی تھی
نظم
منظر یوں تھا
شمیم قاسمی