ایک لڑھکی ہوئی وادی میں
بہت نیچے خلاؤں سے
جہاں دھندلی فضاؤں کا چلن ہے
خستہ سا ایک مکاں مجھ کو وراثت میں ملا ہے
جس طرح سوکھ کے زخموں سے گرا کرتی ہے پپڑی
اس کی دیواروں سے اس طرح سے گرتا ہے پلستر
ایک پاؤں پہ کھڑے سارے ستوں تھک سے گئے ہیں
خوردہ دانتوں کی طرح ہلتی ہیں ہر طاق میں اینٹیں
موچ کھائی ہوئی کچھ کھڑکیاں ترچھی سی کھڑی ہیں
کانچ دھندلائے ہوئے چٹخے ہوئے
پہلے باہر کی طرف کھلتی تھیں افلاک کی جانب
اب یہ اندر بھی نہیں کھلتیں اگر سانس گھٹے
ابرآلود ہیں اب
اور ہواؤں میں بھی سوراخ پڑے ہیں
میرا پیدائشی گھر ہے مجھے رہنا ہے یہیں پر
ایک میلا سا فلک ہے تو مرے سر پہ ابھی تک
ڈرتا ہوں گر نہ پڑے سوتے میں ایک روز کہیں
نظم
مکان
گلزار