لو تم بھی گئے ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے
باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمان وفا اور
یہ عہد کہ تا عمر رواں ساتھ رہوگے
رستے میں بچھڑ جائیں گے جب اہل صفا اور
ہم سمجھے تھے صیاد کا ترکش ہوا خالی
باقی تھا مگر اس میں ابھی تیر قضا اور
ہر خار رہ دشت وطن کا ہے سوالی
کب دیکھیے آتا ہے کوئی آبلہ پا اور
آنے میں تأمل تھا اگر روز جزا کو
اچھا تھا ٹھہر جاتے اگر تم بھی ذرا اور

نظم
میجر اسحاق کی یاد میں
فیض احمد فیض