اس سے رشتہ رہا عجب میرا
آ گیا نام بے سبب میرا
اس سے آگے کے مرحلے پہ مگر
نارسائی کے سلسلے پہ مگر
میں تو کچھ بول بھی نہیں سکتا
راز یہ کھول بھی نہیں سکتا
سلسلہ دور تک اداسی کا
ایک منظر ہے نا سپاسی کا
جھوٹ ہو وقت ہو کہ عشق مدام
یاد ہو خواب ہو کہ ہجر دوام
ان کے تو پاؤں بھی نہیں ہوتے
اور وہ چل کر آئے میرے پاس
بار احساں بھی مجھ پہ ڈال گئے
لے اڑے چھین کر وہ ہوش و حواس
جانے سب ہو گئے کہاں روپوش
ہاں وہی جان آسماں بر دوش
شور ہے خطۂ عداوت میں
میں ہوں پھر حجرۂ ندامت میں
کھو گیا شوق انتظار مرا
چھن گیا مجھ سے میرا شہر نجات
کس بیاباں میں اس نے ڈال دیا
ہو گئی دور شاہراہ حیات
یوں رخ اعتبار بھی ٹوٹا
مذہب اختیار بھی چھوٹا
عشق جب امتحان لیتا ہے
شہر محبوب چھوٹ جاتا ہے
میں وہ پتھر جو ٹوٹتا بھی نہیں
صبر ایوب ٹوٹ جاتا ہے
نظم
میں وہ پتھر
خورشید اکبر