میں وفا کا سوداگر
لٹ کے دشت و صحرا سے
بستیوں میں آیا ہوں
خواب ہائے ارماں ہیں
یا کچھ اشک کے قطرے
زیب طرف مژگاں ہیں
جانے کب ڈھلک جائیں
تار تار پیراہن
ہے لہو میں تر لیکن
جامہ زیبئ الفت
لاج تیرے ہاتھوں ہے
اک ہجوم آنکھوں کا
چیختے سوالوں کا
ہر جگہ ہے استادہ
میں حیات کا مجرم
آرزو کا ملزم ہوں
کوئی ولولہ ہیجاں
کوئی زیست کا ارماں
کچھ نہیں مرے دل میں
اے ہجوم بے پایاں
میں دریدہ پیراہن
سچ ہے تیری بستی میں
ننگ پارسائی ہوں
وجہ سنگ ساری ہوں!
نظم
میں وفا کا سوداگر
عزیز قیسی