EN हिंदी
میں | شیح شیری
main

نظم

میں

شہاب جعفری

;

کس قدر روشن ہیں اب ارض و سما
نور ہی نور آسماں تا آسماں

میرے اندر ڈوبتے چڑھتے ہوئے سورج کئی
جسم میرا روشنی ہی روشنی

پانو میرے نور کے پاتال میں
ہاتھ میرے جگمگاتے آسمانوں کو سنبھالے

سر مرا کاندھوں پہ اک سورج
کہ نادیدہ خلاؤں سے پرے ابھرا ہوا

اور زمیں کے روز و شب سے چھوٹ کر
آگہی کی تیز رو کرنوں پہ میں اڑتا ہوا

چار جانب اک سہانی تیرگی کی کھوج میں نکلا ہوا