رات اس کو خواب میں دیکھ کر
میں نے کچھ نہیں کہا
چار سال کی تھکن جواں ہوئی
تشنگی بڑھ کے بے کراں ہوئی
ہاں مگر جب آنسوؤں کی نرم گرم تازگی
آس پاس دل کشی بکھر گئی
اور ایک سایہ سا سرہانے آ کے تھم گیا
میں نے یہ کہا کہ اے مرے خدا
تو بڑا رحیم ہے
اس کا دل دو نیم ہے
اس کے رنگ اس کے حسن کو نکھار دے
اس کے دل کا بوجھ اتار دے
تو اسے سکون دے مجھے جنون دے
اس کے دکھ اس کے درد چھین لے
اس کے روگ مجھ کو دے
میں گناہ گار ہوں
رات اس کو خواب میں دیکھ کر
چار سال جیسے پھر اسی طرح گزر گئے
چار سال کس طرح گزر گئے
دل یہ سوچتا رہا
میں نے کچھ نہیں کہا
نظم
میں نے کچھ نہیں کہا
محبوب خزاں