EN हिंदी
میں نے جو چاہا | شیح شیری
maine jo chaha

نظم

میں نے جو چاہا

مصطفیٰ ارباب

;

میں نے جو چاہا
وہ ہو گیا

یہ اور بات ہے
اس ہونے میں کتنے برس صرف ہوئے

میں نے
اس خوب صورت لڑکی کے ساتھ

کتنا وقت بسر کیا
یہ بات کوئی وقعت نہیں رکھتی

میں اس کے پاس گیا
اسے چوما

اور اپنے بازووں میں بھر لیا
سرشاری کہاں سے شروع ہوتی ہے

یہ میں نے جان لیا
اس کی حد کہاں ختم ہوتی ہے

یہ بھی معلوم ہو گیا
اب زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں