EN हिंदी
میں نے بھی آم رکھ دیا | شیح شیری
maine bhi aam rakh diya

نظم

میں نے بھی آم رکھ دیا

خالد عرفان

;

گوروں نے میرے دیس پر اپنا نظام رکھ دیا
ایک غلام اٹھا لیا ایک غلام رکھ دیا

تم نے خدا کے گھر میں بھی فتنۂ عام رکھ دیا
میرے امام کی جگہ اپنا امام رکھ دیا

اس نے تو میری یاد کو دل میں چھپایا اس طرح
جیسے سوئیس بینک میں مال حرام رکھ دیا

شیریں لبوں کو دیکھ کے میں کھا رہا تھا مینگو
اس نے جو ہونٹ سی لیے میں نے بھی آم رکھ دیا

گھر میں لغت نہ تھی کوئی جلدی میں اس کے باپ نے
بنت سیاہ فام کا چاندنی نام رکھ دیا

بیٹھی ہوئی ہے آج وہ بالوں کی وگ اتار کر
گویا شراب پھینک کر میز پہ جام رکھ دیا

مجھ کو بلا کے گھر میں ایک شاعر با کمال نے
تازہ طعام کی جگہ تازہ کلام رکھ دیا