EN हिंदी
میں نظم لکھتا ہوں! | شیح شیری
main nazm likhta hun!

نظم

میں نظم لکھتا ہوں!

قاسم یعقوب

;

میں جب تخلیق کا جگنو پکڑتا ہوں
میں جب اندر اندھیرے میں

گندھی مٹی کا پانی
روشنی کی بوند کی خواہش جگاتا ہے

کیمیائی خواب کتنے اہتمام انگیز ہوتے ہیں
بھٹکتی خوشبوؤں کو جمع کرتے ہیں

پہاڑوں پر پڑی بینائیوں کی وسعتوں کو
جوڑ کر ترتیب سے رکھتے ہیں

اور آنکھیں بناتے ہیں
پھر ان میں آنسوؤں کی فصل اگاتے ہیں

مجھے بارش بتاتی ہے
کہ ماتھے سے پسینہ بہہ رہا ہے

تھوک منہ بھر کے نکلنے سے
اپاہج حرکتوں کا زنگ اترتا ہے

اذیت سہنے کی لذت مرے اندر اترتی ہے
میں بستر پر سکڑتا ہوں

نئی اک نظم لکھتا ہوں