EN हिंदी
میں نفی میں | شیح شیری
main nafi mein

نظم

میں نفی میں

دانیال طریر

;

نہیں میں نہیں ہوں
کسی دوسرے نے مجھے ''میں'' کہا ہے

تو میں ہو گیا ہوں
نفس کھنچتا ہوں

مگر زندگی میری خواہش نہیں ہے
مجھے زندگی نے چنا ہے

لہٰذا مرے فیصلے زندگی کر رہی
میں روتا نہیں ہوں

مری آنکھ سے اوس کے پھول
غم کی ہوائیں گراتی ہیں

کلیاں ہنسی کی
مرے لب پہ کھلتی نہیں ہیں

خوشی کی بہاریں کھلاتی ہیں
خود آتی جاتی ہیں دل میں تمنائیں

میں کب بلاتا ہوں
(میری کمائی

فقط نارسائی ہے)
میں نے محبت بھی کب منتخب کی ہے

اس نے مجھے اپنی فہرست میں لکھ لیا ہے
مجھے خواب آتے نہیں ہیں

سو خوابوں نے طے کر لیا ہے
کہ آئندہ وہ میری آنکھوں کے بوسوں سے

کوسوں کے لمبے سفر پر چلیں گے
نہیں میں کوی بھی نہیں ہوں

مجھے نظم لکھتی ہے
میں نظم لکھتا نہیں ہوں