میں کہ اک بنی آدم
عالم عناصر کا
اک خمیر تازہ دم
اک حیات مجھ میں ہے
کائنات مجھ میں ہے
میری سلطنت ہے سب
مجھ سے ہے جہاں قائم
میں ہوں گردش پیہم
رو میں ہے لہو ہر دم
کیا خبر لہو کیا ہے
ایک شورش ہستی
ایک داخلی طوفاں
ایک محشر دوراں
کیا خبر لہو کیا ہے
گردشیں ستاروں کی
گردش آسمانوں کی
گردشیں زمینوں کی
گردشیں زمانوں کی
کیا خبر لہو کیا ہے
یہ نظام کل جاری
یعنی حرکتیں ساری
سب لہو کی حرکت ہے
ہے لہو کے دم سے ہی
امن بھی، محبت بھی
جنگ بھی، عداوت بھی
شورش و بغاوت بھی
کیا خبر لہو کیا ہے
گردشیں لہو کی جب
مجھ میں شور کرتی ہیں
بے خودی کے نشے میں
جسم کا ہر اک خلیہ
رقص کرنے لگتا ہے
اور پھر یہ ہوتا ہے
خشکیوں کا ہر ذرہ
پانیوں کا ہر قطرہ
ایک بے بدن جذبہ
رقص کرنے لگتا ہے
اس جنوں کے عالم میں
زخم جاگ جاتے ہیں
درد چیخ اٹھتا ہے
اور پھر یہ ہوتا ہے
روح و دل کی وادی میں
نغمے گونج اٹھتے ہیں
نغمہ ہائے سحر انگیز
بے کراں فضاؤں میں
لا مکاں خلاؤں میں
سوز اور فغاں بن کر
میٹھی لے میں ڈھل ڈھل کر
جب بکھرنے لگتے ہیں
ایسے سحر عالم میں
ایک کیف و مستی کا
نشہ چھانے لگتا ہے
اور پھر یہ ہوتا ہے
کائنات کی ہر شے
گنگنانے لگتی ہے
اور پھر وہی نغمے
روح و دل کے چھالوں کو
تار، تار زخموں کو
نیم جاں کراہوں کو
لالہ زار داغوں کو
جاگتے پھپھولوں کو
مست لوریاں دے کر
خواب کے گلستاں میں
لاپتہ زمانے تک
یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں
اصل میں وہی نغمے
درد کا مداوا ہیں!!
نظم
میں کہ اک بنی آدم
خالد مبشر