میں اک پھیری والا
بیچوں یادیں
سستی مہنگی سچی جھوٹی اجلی میلی رنگ برنگی یادیں
ہونٹ کے آنسو
آنکھوں کی مسکان ہری فریادیں
میں اک پھیری والا
بیچوں یادیں
یادوں کے رنگین غبارے
نیلے پیلے لال گلابی
رنگ برنگے دھاگوں کے کندھوں پر بیٹھے کھیل رہے ہیں
ٹھیس لگی تو چیخ اٹھیں گے
دھاگے کی گردن سے چمٹ کر رہ جائیں گے
میں پھر ان رنگیں دھاگوں میں یادوں کے کچھ نئے غبارے باندھ کے گلیوں بازاروں سے
کچے پکے دروازوں سے
آوازیں دیتا گزروں گا
سستی مہنگی جھوٹی سچی اجلی میلی یادیں لے لو
ہونٹ کے آنسو
آنکھوں کی مسکان ہری فریادیں لے لو
نظم
میں اک پھیری والا
راہی معصوم رضا