رات کے فرش پر
موت کی آہٹیں
پھر کوئی در کھلا
کون اس گھر کے پہرے پہ مامور تھا
کس کے بالوں کی لٹ
کس کے کانوں کے در
کس کے ہاتھوں کا زر، سرخ دہلیز پر قاصدوں کو ملا؟
کوئی پہرے پہ ہو تو گواہی ملے
یہ شکستہ شجر
یہ شکستہ شجر جس کے پاؤں میں خود اپنے سائے کی موہوم زنجیر ہے
یہ شکستہ شجر تو محافظ نہیں
یہ شکستہ شجر تو سپاہی نہیں
شب سے ڈرتا ہوں میں
ایک تصویر بے رنگ ہے سامنے جس سے ڈرتا ہوں میں
ایک صورت کہ جس کے خد و خال کی میری صبح ہنر
سے شناسائی ہے
اس سے ڈرتا ہوں میں
ایک شعلہ کہ اب تک خس جاں میں تھا، اس کا سرکش شرر
کاغذوں میں، مکانوں میں، باغوں میں ہے
اس کی مانوس حدت سے ڈرتا ہوں میں
ایک آواز کہسار تفریق پر جو صف آرا ہیں وہ اپنے بھائی نہیں
اس صدا رو بہ صحرا سے ڈرتا ہوں میں
شب سے ڈرتا ہوں میں
نظم
میں غیر محفوظ رات سے ڈرتا ہوں
اختر حسین جعفری