EN हिंदी
میں اور وہ | شیح شیری
main aur wo

نظم

میں اور وہ

منیر نیازی

;

روز ازل سے وہ بھی مجھ تک آنے کی کوشش میں ہے
روز ازل سے میں بھی اس سے ملنے کی کوشش میں ہوں

لیکن میں اور وہ ہم دونوں
اپنی اپنی شکلوں جیسے لاکھوں گورکھ دھندوں میں

چپ چپ اور حیران کھڑے ہیں
کون ہے میں

اور کون ہے تو
بس اس درد میں کھوئے ہوئے ہیں

صبح کو ملنے والے سمجھیں
جیسے یہ تو روئے ہوئے ہیں