EN हिंदी
میں اور تم | شیح شیری
main aur tum

نظم

میں اور تم

میمونہ عباس خان

;

رات کے پچھلے پہر کی سنسان سڑکیں
رم جھم برستی بارش کی پھوار میں بھیگتی

جیسے جی اٹھی تھیں
جب میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے تم نے

لمس کی حدت سے بوجھل ہوتی
بے ترتیب سانسوں کے بیچ الجھتی

اپنی دل نشین آواز
میرے کانوں میں تمہارے لیے

میری آخری نظم صورت اتاری تھی
اس انمول لمحے میں

تمہاری ذات کے سحر میں کھوئی ہوئی میں
کسی انجان سی یاد کی کسک تلے

دھیرے سے سلگتے ہوئے تم
محبت کا الوہی نغمہ الاپتیں

گاڑی کے شیشوں سے ٹکراتیں
رم جھم برستی بوندیں

ڈیش بورڈ پہ دھری بھاپ اڑاتی
ہمارے لبوں میں پیوست ہونے کو بیقرار

کافی کی دو منتظر پیالیاں
چہار سو چھائی تمہارے احساس کی خوشبو سے

جیسے جاوداں ہو چلے تھے
یاد نہیں پڑتا ہے اب

کہ میں تم اور کافی کی مہک
بارش کے ہالے میں

تمہاری نظموں کی چھتری تلے
ایک دوسرے میں کتنا گھل گئے تھے

بس اتنا پتہ ہے
کہ

وقت
اس لمحے

اپنی مٹھی میں قید
ہمارے حصے کے پل

ہم پہ وارنے
ٹھہر گیا تھا