ہم سمندر سے ملنے ذرا دیر سے پہنچے
رات سمندر سے زیادہ گہری ہو رہی تھی
ہم ننگے پاؤں ساحل کے ساتھ
بہت دور تک چلے
دنوں کے بعد سرشاری نے اپنا چہرہ دکھایا تھا
اور ہماری بھولی ہوئی دھن گنگنائی تھی
سمندر ہماری خاموشی میں ڈوبنے ہی والا تھا
جب ہمارا گیت پتوار ہوا
اجنبی قدموں کے نشان چنتے ہوئے
خیال آیا
چہل قدمی کرتے ہوئے وہ دو سائے کیا ہوئے
یہ لہریں جن کے پاؤں چرا لائی ہیں
تبھی ہم نے اپنے جوتوں میں جھانک کر دیکھا
ساحل ابھی پوری طرح نہیں پھسلا تھا
ہم نے سوچا
سمندر کو اب سو جانا چاہیئے
رات کی خنکی ہماری رگوں میں اتر چکی تھی
جب ہم واپسی کے لیے مڑے
سمندر بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہمیں رخصت کرنے آیا
غنودہ چاند روشن ہوا
اور ہمیں گھر تک چھوڑنے کی ضد کی
ہم نے دبے پاؤں اونگھتے دروازے پر دستک دی
جہاں اداسی دیر سے ہمارا انتظار کر رہی تھی!
نظم
میں اور میری تنہائی
انجم سلیمی