میں جانتا ہوں
یہ رات کو چپکے چپکے خوابوں میں
یوں ترا بار بار آنا
وہ سہمے سہمے ہوئے سے رکنا
وہ بے کسی میں قدم اٹھانا
وہ حسرت گفتگو میں تیرے
خموش ہونٹوں کا تلملانا
سمجھ گیا ہوں
کہ مجھ سے ملنے کی آرزو
تجھ کو کیسے بے تاب کر رہی ہے
مگر مری جان!
تو ایسی منزل پہ جا رہی ہے
جہاں سے پیچھے کو
لوٹ آنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے
تو پھر کیا ہوگا
جہاں یہ بے روز و شب کے اتنے
طویل لمحے گزر گئے ہیں
کچھ اور دل کو ذرا سنبھالو
کچھ اور ابھی انتظار کر لو
میں آ رہا ہوں
میں آ رہا ہوں
نظم
میں آ رہا ہوں
صوفی تبسم