تو بھی تقدیر نہیں درد بھی پایندہ نہیں
تجھ سے وابستہ وہ اک عہد وہ پیمان وفا
رات کے آخری آنسو کی طرح ڈوب گیا
خواب انگیز نگاہیں وہ لب درد فریب
اک فسانہ ہے جو کچھ یاد رہا کچھ نہ رہا
میرے دامن میں نہ کلیاں ہیں نہ کانٹے نہ غبار
شام کے سائے میں واماندہ سحر بیٹھ گئی
کارواں لوٹ گیا مل نہ سکی منزل شوق
ایک امید تھی سو خاک بسر بیٹھ گئی
ایک دو راہے پہ حیران ہوں کس سمت بڑھوں
اپنی زنجیروں سے آزاد نہیں ہوں شاید
میں بھی گردش گہہ ایام کا زندانی ہوں
درد ہی درد ہوں فریاد نہیں ہوں شاید
زیر مژگاں تپش آہ کے پگھلائے ہوئے
ڈبڈباتے ہوئے تاروں سے مجھے کیا لینا
تیرے آنسو مرے داغوں کو نہیں دھو سکتے
تیرے پھولوں کی بہاروں سے مجھے کیا لینا
اپنے انجام کی تشویش اب آئندہ نہیں
نظم
محرومی
اختر الایمان