EN हिंदी
مہکتی ہوئی تنہائیاں | شیح شیری
mahakti hui tanhaiyan

نظم

مہکتی ہوئی تنہائیاں

اشوک لال

;

ایک خوشبو سی بسی رہتی ہے سانسوں میں مرے
حسن کا دھیان بھی خود حسن کے مانند حسیں

پاس ہو تم تو یہ قدرت ہے محبت جاگے
دور ہونے پہ بھی احساس کا رہنا ہے یقیں

لمحہ ہر ساتھ میں لاتا ہے ہزاروں دنیا
بوند کی کوکھ میں جیوں اندر دھنش رہتا ہے

کتنے بھی گہرے اندھیرے ہوں تمہارا جادو
روشنی بن کے ہر اک رگ میں میری بہتا ہے

حسن وہ شے ہے کہ جس کی کوئی سرحد ہی نہیں
وقت بے معنی ہے اور فاصلہ اک دھوکہ ہے

گھاؤ رہتا ہے ہرا ٹیس کے پہناوے میں
خواب اور یاد کا ایک ایک نفس سچا ہے