EN हिंदी
مگر وہ نہ آیا | شیح شیری
magar wo na aaya

نظم

مگر وہ نہ آیا

رفیق سندیلوی

;

میں نے آواز دی
اور حصار رفاقت میں

اس کو بلایا
مگر وہ نہ آیا

گل خواب کی پتیاں
دھوپ کی گرم راحت میں گم تھیں

مرے جسم پر
نرم بارش کی بوندیں بھی گھوڑے کا سم تھیں

زمیں ایک انبوہ ہجراں میں
اس چاپ کی منتظر تھی

جو لا علم پھیلاؤ میں منتشر تھی
پرندے سبک ریشمیں ٹہنیاں

اپنی منقار میں تھام کر اڑ رہے تھے
نشیب جنوں کی طرف

پانیوں کی طرح میرے سائے بہے تھے
کف چشم پر میں نے اس کے لیے

شہر گریہ سجایا
مگر وہ نہ آیا

کسی سمت سے اس کی آہٹ نہ آئی
بہت دیر تک رات کے سرد خانے میں

اک آگ میں نے جلائی
کہیں دور سے

کوئی بے انت محروم آواز آئی
جدائی جدائی

تو پھر میں نے اس کے لیے دھند ہموار کی
رستۂ نو بنایا

مگر وہ نہ آیا