مچا کہرام کیوں ہے
گھر بدلنے پر
ابھی بھی ہلکے کالے
شیشے والی
آنکھ پر عینک لگا کر
حلقۂ یاراں میں وہ اکثر
چہل قدمی کو آتا ہے
سناتا ہے غزل اپنی
کبھی تاروں کی جھرمٹ میں
کبھی رستے میں شبنم کے
کبھی خوشبو لپیٹے جسم پر
دلکش فضاؤں میں
کبھی بے حد چمکتی دھوپ کے
پیپل کی چھاؤں میں
ذرا سا
چشم باطن کو
منور کر کے تو دیکھو
لیے دریا کو ہاتھوں میں
بہت شاداں
بہت فرحاں
نظر آتا ہے مسند پر
غزل کی وہ
نظم
مچا کہرام کیوں ہے
جعفر ساہنی