ہمارے یہاں بچے کو
جو ابھی پوری طرح کھڑا ہونا بھی نہ سیکھا ہو
پستول ہاتھ میں دے دی جاتی ہے
دو چار بار اسے زمین پر گرا کر
اسے پستول سنبھالنا
اور پھر ہات کو ذرا سی جنبش سے
اسے انگلیوں کے درمیان
پھر کی کی طرح بھی آ جاتا ہے
لڑکپن پھلانگنے سے پہلے
اسے دو ایک آدمی گرانا ہوتے ہیں
بڑے ہونے پر اس کے ہاتھوں میں
اصلی بندوق
یا مشین گن تھما دی جاتی ہے
اب اس سے توقع کی جاتی ہے
کہ وہ دو ایک افراد کو گرانے پر اکتفا نہیں کرے گا
بلکہ کئی انسانوں کے خون سے
اپنے ہاتھ رنگے گا
مجھے اعتراف ہے
ہمارے یہاں
سب لوگ ایسا نہیں کر پاتے
کچھ تو کھلونا پستول ہی سے
اپنی نا پختہ عمر میں
خود کو ہلاک کر لیتے ہیں
کچھ ایسے بھی ہیں
جو سچ مچ کی پستول کو بھی
کھلونا ہی سمجھتے ہیں
اس لیے انہیں
اس لیے لائسنس کہ ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی
جنہیں وہ ہلاک کرتے ہیں
اکثر ان میں اس کے قریبی دوست
یا عزیز و اقارب ہوتے ہیں
انہیں ہلاک کرنے کے بعد
یہ دیکھ کر وہ حیران رہ جاتے ہیں
کہ ان کے ہاتھوں میں
سچ مچ کی پستول آ کیسے گئی
اور وہ کب سے
کسی کے نشانے پر تھے
نظم
معصومیت
سعید الدین