پہلی بار میں کب تکیے پر
سر کو رکھ کر سوئی تھی
ان کے بدن کو ڈھونڈا تھا اور روئی تھی
دو ہاتھوں نے بھینچ لیا تھا
گرم آغوش کی راحت میں
کیسی گہری نیند مجھے تب آئی تھی
کب دور ہوئی تھی پہلی بار
اپنے پیروں پر چل کر
بستر سے الگ پھر گھر سے الگ
اک لمبے سفر پر نکلی تھی
اپنی انگلی کو تھامے
دھیرے دھیرے دور ہوئی کب
نرم بدن کی گرمی سے
اس میٹھی نیند کی راحت سے
اب سوچتی ہوں اور روتی ہوں
نظم
ماں
فاطمہ حسن