طبیعت جبریہ تسکین سے گھبرائی جاتی ہے
ہنسوں کیسے ہنسی کمبخت تو مرجھائی جاتی ہے
بہت چمکا رہا ہوں خال و خط کو سعیٔ رنگیں سے
مگر پژمردگی سی خال و خط پر چھائی جاتی ہے
امیدوں کی تجلی خوب برسی شیشۂ دل پر
مگر جو گرد تھی تہ میں وہ اب تک پائی جاتی ہے
جوانی چھیڑتی ہے لاکھ خوابیدہ تمنا کو
تمنا ہے کہ اس کو نیند ہی سی آئی جاتی ہے
محبت کی نگوں ساری سے دل ڈوبا سا رہتا ہے
محبت دل کی اضمحلال سے شرمائی جاتی ہے
فضا کا سوگ اترا آ رہا ہے ظرف ہستی میں
نگاہ شوق روح آرزو کجلائی جاتی ہے
یہ رنگ مے نہیں ساقی جھلک ہے خوں شدہ دل کی
جو اک دھندلی سی سرخی انکھڑیوں میں پائی جاتی ہے
مرے مطرب نہ دے للّٰلہ مجھ کو دعوت نغمہ
کہیں ساز غلامی پر غزل بھی گائی جاتی ہے
نظم
ماحول
کیفی اعظمی