اسی روش پہ ہے قایم مزاج دیدہ و دل
لہو میں اب بھی تڑپتی ہیں بجلیاں کہ نہیں
زمیں پہ اب بھی اترتا ہے آسماں کہ نہیں؟
کسی کے جیب و گریباں کی آزمائش میں
کبھی خود اپنی قبا کا خیال آتا ہے
ذرا سا وسوسۂ ماہ و سال آتا ہے؟
کبھی یہ بات بھی سوچی کہ منتظر آنکھیں
غبار راہ گزر میں اجڑ گئی ہوں گی
نظر سے ٹوٹ چکے ہوں گے خواب کے رستے
وہ ماہتاب سی نیندیں بچھڑ گئی ہوں گی
نیاز خواجگی و شان سروری کیا ہے
شعار مشفقی و طرز دلبری کیا ہے
یہ بے رخی یہ ادائے ستم بھی پوچھیں گے
ہماری عمر کے ہو لو تو ہم بھی پوچھیں گے
نظم
ماہ و سال
مصطفی زیدی