اونچی پیڑھی پر بیٹھی
برتاوا کرتی
چوکس آنکھیں
ہو کے جیسی بھوک سے لڑتی
روٹی توڑتے ہاتھوں کو تہذیب سکھاتی
چسکے لیتی جیبھوں کو اک حد میں رکھتی
پیاس بجھانے کے آداب بتاتی آنکھیں
باچھوں سے بہتی خواہش کو پونچھنے والی
نظروں میں ہلکورے لیتے لالچ کو چمٹے میں بھر کے
جلتی آگ میں جھونکنے والی
ننھے ہاتھوں سے چپکی چھینا جھپٹی کو
ممتا کے پانی سے دھونے والی آنکھیں
کس کاجل کو پیاری ہو گئیں
بچے مل کر کھانا پینا بھول گئے ہیں
نظم
مائیں بوڑھی ہونا بھول چکی ہیں
حمیدہ شاہین