EN हिंदी
لو گرد اور کتابیں | شیح شیری
lo gard aur kitaben

نظم

لو گرد اور کتابیں

بلراج کومل

;

سلگتے دن ہیں
طویل تنہائیاں مرے ساتھ لیٹے لیٹے

فضا سے آنکھیں لڑا رہی ہیں
مرے دریچے کے پاس سنسان رہ گزر ہے

ابھی ابھی ایک ریلا آیا تھا گرد کا جو لپیٹ کر لے گیا ہے تنکوں کو ساتھ اپنے
مری کتابوں میں کچھ نہیں ہے

حروف بے روح بد مزہ ہیں
حکایتیں اپنے خشک ہونٹوں کو چاٹتی ہیں

تمام اشعار تشنگی کے لہو میں پلکیں ڈبو رہے ہیں
نہ رنگ و نغمہ نہ جام و مینا نہ رقص و مستی

بگولے سب کو نگل رہے ہیں
تمہاری تصویر ڈھونڈھتا ہوں

کہ جس کے ٹھنڈے گھنیرے سائے میں بیٹھ کر کوئی بات سوچوں
مگر مرے پاس لو کے جھونکے ہیں گرد ہے اور کچھ کتابیں

تمہاری تصویر کھو چکی ہے