لکھنا جو چاہتا تھا وہ لکھا نہیں گیا
نیندوں میں خواب مٹ گئے
الفاظ کھو گئے
اک خاموشی کا پیڑ مرے دل میں بو گئے
بارش میں بد حواسی کے
سارے نقوش حرفوں کے دھندلا کے بہہ گئے
آنسو نے جو بھی دیکھا تھا اس کو مٹا دیا
دل نے ہوس کی آگ کو ساری جلا دیا
کوئی نہ رنگ و روپ
دل درد کے قریب
آشا بھی مٹ گئی ہے نراشا بھی مٹ گئی
دل میں کوئی بھی ذوق تماشا نہیں رہے
اپنے لیے تو کوئی بھی اچھا نہیں رہے
منظر نہیں رہے ہیں تو آنکھیں نہیں رہیں
خاموش ہے زبان کہ باتیں نہیں رہیں
سب پارہ پارہ ہو گیا کس افتراق میں
خالی مکان سا ہے کہاں درمیان میں
کچھ ذہن میں نہیں ہے میں لکھوں تو کیا لکھوں
سارے نقوش گھرے ہیں قدم میں کہاں رکھوں
کوئی راستہ نہیں ہے میں کس سمت میں چلوں
منزل دکھائی دے تو میں اس کی طرف بڑھوں
آواز کھو گئی کہ اظہار میں کروں
جی چاہتا ہے چلو بھر پانی میں ہی مروں
کوئی راستہ نہیں ہے
بتاؤ میں کیا کروں
لکھنا جو چاہتا تھا وہ لکھا نہیں گیا
کیا قبر میں سناؤں گا انہیں میں داستاں
منکر نکیر کو میں
بلاؤں نہ کیوں یہاں
وہ لفظ ساتھ لے کے آئیں
تو میں لکھوں
ایک ایسی نظم جو ہو حکایت نئی نئی
بن جائے جس سے میری بھی قسمت نئی نئی
آئینۂ جمال ہویدا کو کیا ہوا
دیدہ کی روشنی کو نظارہ کو کیا ہوا
سب کھو گئے ہیں دانش و بینش کہاں چلیں
اب وقت ہی نہیں ہے کہ دل کو سمیٹ لیں
سب کچھ ادھار کھایا تھا کیسے ادا کریں
اس نفس کر سواد میں جی کر بھی کیا کریں
دریا کنارے جائیں وہاں ڈوب مرو ہیں
پھر اس کے بعد ہوگا کیا
مگر فن ہم کو کچھ نہیں
ہاں جانتے ہیں
دور کی گاؤں کے کنار
اگلے گی راستہ ہو کے بہت یاد بے کراں
ہاتھوں میں اپنی پاس سے کمی لائے گی بہار
گھبرا کے سارے گاؤں کے باسی پکاریں گے
جلوسی جلاؤ ناک کے کیڑے سدھاریں گے
پھر چلو چلو
لکڑیوں کے ڈھیر پر ہمیں
کریں گے سوار وہ
کہ بن کے پھر
آگ کے نثار
جب راکھ اپنی دریا میں پھر سے بہائیں گے
ساحل کی مٹی میں نئے گل مسکرائیں گے
کھیتوں میں تازہ بوٹے
نئے پودے
پھر سے ابھر آئیں گے
شاید کہ ختم ہو نہ کبھی بھی یہ سلسلہ
کتنا بھی تم پکارو اسے دیر دیر تک
کتنی ہی کر لو بیٹھ کر تم نئی دعا
گر آسان ہوتا وہ سننا
تمہاری ندا
کرتا کوئی دوا
ہوتا نہ سانحہ
ہر ہر قدم پہ کرتے
سجدہ ہر کہیں
اس زندگی کا ہوتا
ہر اک لمحہ جاں فزا
ہر پل میں نور ہوتا
سنسان وادیوں میں
چمکتا یہ قافلہ
اور پھیلتی زمین پر
اس نور کی نہا
ہر سمت چاند ہوتا
ہر اک سمت آفتاب
پھر پیکروں میں ڈھل کے ہر اک خواب
آتے ہی مرے روبرو
نیا سا قلم کوئی
چلتے ہم اس کے ساتھ بہت دور پر کہیں
پھر لکھتے داستان وجود و عدم کہیں
رکتا نہ پھر کہیں بھی
ہمارا قلم کہیں
لکھنا جو چاہتا تھا وہ لکھا نہیں گیا
نظم
لکھنا جو چاہتا تھا
خلیل مامون