EN हिंदी
لمس آخری | شیح شیری
lams-e-aKHiri

نظم

لمس آخری

اختر پیامی

;

نہ رؤو جبر کا عادی ہوں مجھ پہ رحم کرو
تمہیں قسم مری وارفتہ زندگی کی قسم

نہ رؤو بال بکھیرو نہ تم خدا کے لیے
اندھیری رات میں جگنو کی روشنی کی قسم

میں کہہ رہا ہوں نہ رؤو کہ مجھ کو ہوش نہیں
یہی تو خوف ہے آنسو مجھے بہا دیں گے

میں جانتا ہوں کہ یہ سیل بھی شرارے ہیں
مری حیات کی ہر آرزو جلا دیں گے

نہ اتنا رؤو یہ قندیل بجھ نہ جائے کہیں
اسے خود اپنا لہو دے کے میں جلاتا ہوں

جو ہم نے مل کے اٹھائے تھے وہ محل بیٹھے
اب اپنے ہاتھ سے مٹی کا گھر بناتا ہوں

تمہارے واسطے شبنم نچوڑ سکتا ہوں
زر و جواہر و گوہر کہاں سے لاؤں میں

تمہارے حسن کو اشعار میں سجا دوں گا
تمہارے واسطے زیور کہاں سے لاؤں میں

حسین میز سبک جام قیمتی فانوس
مجھے یہ شک ہے میں کچھ بھی تو دے نہیں سکتا

غلام اور یہ شاعر کا جذبۂ آزاد
میں اپنے سر پہ یہ احسان لے نہیں سکتا

مجھے یقین ہے تم مجھ کو معاف کر دو گی
کہ ہم نے ساتھ جلائے تھے زندگی کے کنول

اب اس کو کیا کروں دشمن کی جیت ہو جائے
ہمارے سر پہ برس جائے یاس کا بادل

نہ رؤو دیکھو مری سانس تھرتھراتی ہے
قریب آؤ میں آنسو تو پونچھ کر دیکھوں

سنو تو سوئی ہوئی زندگی بھی چیخ اٹھے
قریب آؤ وہی بات کان میں کہہ دوں

نہ رؤو میری سیہ بختیوں پہ مت رؤو
تمہیں قسم مری آشفتہ خاطری کی قسم

مٹا دو عارض تاباں کے بد نما دھبے
تمہارے ہونٹوں پہ اس لمس آخری کی قسم