EN हिंदी
لمحے کی موت | شیح شیری
lamhe ki maut

نظم

لمحے کی موت

خلیلؔ الرحمن اعظمی

;

کچھ دور تلک
کچھ دور تلک

وہ لمحہ اس کے ساتھ چلا
جب اس نے دل میں یہ سوچا

یہ گرتی دیواریں
یہ دھواں

یہ کالی چھتیں
یہ اندھے دیئے

سنولاتے ہوئے سارے چہرے
اب اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں گے

جب نگر نگر کی سیاہی
ان ٹیڑھی میڑھی سڑکوں کی

آوارہ گردی
ہنستے جسم

کھنکتے پیالوں
کی موسیقی

اس کو راس نہ آئی
اس نے کہا

اب آؤ لوٹ چلیں
اک شام وہ اپنے گھر پہنچا

اور اس سے ملنے کو آئے
سب ساتھی اس کے بچپن کے

سب کہنے لگے
ان جگ مگ کرتے شہروں کا

کچھ حال بتاؤ
اپنے سفر کی

کچھ روداد کہو
وہ خاموش رہا

وہ دیکھ رہا تھا اس میلے سے طاق کو
جس پر

اب بھی ایک گھڑی رکھی تھی
اور وہ بند پڑی تھی