ہتھیلی کی لکیروں میں
مقدر قید ہے
عمر رواں کے بیشتر لمحے
نہ جانے کون سی آسودگی کی جستجو میں
کتنے ہی دریاؤں کو اک رو میں پیچھے چھوڑ آئے ہیں
مگر ساحل پہ آ کر
میرے پیاسے ہونٹ اب تک پھڑپھڑاتے ہیں
مری آنکھوں میں بھی ناکامیاں ہی رقص کرتی ہیں
مگر
احساس کے تاریک آنگن میں
امیدوں کی کرن سرگوشیاں کرتی
سنائی جب بھی دیتی ہیں
تو پھر سے تازہ دم ہو کر
مقدر سے
رہائی کی
جسارت کرنے لگتا ہوں
نظم
لکیریں
عادل حیات