یہ ٹکڑے یہ ریزے یہ ذرے یہ قطرے یہ ریشے
یہ میری سمجھ کی نسینی کے پادان
انہیں جوڑتا ہوں تو کوئی بدن
نہ کوئی صراحی نہ صحرا نہ دریا نہ کوئی شجر کچھ بھی بنتا نہیں
لکیروں سے خاکے ابھرتے ہیں لیکن
یہ کوشش مٹائی ہوئی صورتیں پھر بناتی نہیں
کہ وہ جان جس سے یہ سارا جہان
حرارت سے حرکت سے معمور تھا اب کہاں ہے؟
میری عقل نے سرد آہن کے بے جان ٹکڑوں کو آلات کی شکل میں ڈھال کر
مرے توڑنے جوڑنے کے عمل میں لگایا
جلا کر ہر اک جسم کو پھونک کر جان کو راکھ سے اپنی زنبیل بھر لی
تو اس راکھ سے کیسے وہ صورتیں پھر جنم لیں
جنہیں وقت نے اور میں نے مٹایا
نظم
لخت لخت
عمیق حنفی