لہو پکارتا ہے
ہر طرف پکارتا ہے
سحر ہو، شام ہو، خاموشی ہو کہ ہنگامہ
جلوس غم ہو کہ بزم نشاط آرائی
لہو پکارتا ہے
لہو پکارتا ہے جیسے خشک صحرا میں
پکارا کرتے تھے پیغمبران اسرائیل
زمیں کے سینے سے اور آستین قاتل سے
گلوئے کشتہ سے بے حس زبان خنجر سے
صدا لپکتی ہے ہر سمت حرف حق کی طرح
مگر وہ کان جو بہرے ہیں سن نہیں سکتے
مگر وہ قلب جو سنگیں ہیں ہل نہیں سکتے
کہ ان میں اہل ہوس کی صدا کا سیسہ ہے
وہ جھکتے رہتے ہیں لب ہائے اقتدار کی سمت
وہ سنتے رہتے ہیں بس حکم حاکمان جہاں
طواف کرتے ہیں ارباب گیر و دار کے گرد
مگر لہو تو ہے بے باک و سرکش و چالاک
یہ شعلہ مے کے پیالے میں جاگ اٹھتا ہے
لباس اطلس و دیبا میں سرسراتا ہے
یہ دامنوں کو پکڑتا ہے شاہراہوں میں
کھڑا ہوا نظر آتا ہے داد گاہوں میں
زمیں سمیٹ نہ پائے گی اس کی بانہوں میں
چھلک رہے ہیں سمندر سرک رہے ہیں پہاڑ
لہو پکار رہا ہے لہو پکارے گا
یہ وہ صدا ہے جسے قتل کر نہیں سکتے
نظم
لہو پکارتا ہے
علی سردار جعفری