دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے سیارے کو لفظوں سے بھر دیا
فیصلوں اور فاصلوں کو طول دینے کا فن انہیں خوب آتا ہے
جہاز بندرگاہوں میں کھڑے ہیں
اور گھروں، گوداموں، دکانوں میں
کسی لفظ کے لئے جگہ نہیں رہی
اتنے بہت سے لفظ۔۔۔ اف خدایا!
مجھے اس زمین پر چلتے ہوئے اٹھائیس برس ہو گئے
باپ، ماں، بہنوں، بھائیوں اور محبوباؤں کے درمیان
انسانوں کے درمیان
میں نے دیکھا
ان تعریفوں، تعارفوں اور تعزیتوں کے لیے
ان کے پاس لرزتے ہوئے ہونٹ ہیں
ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں ہیں
گرم ہتھیلیاں ہیں
انہیں کسی ابلاغ کی ضرورت نہیں
نان بائی گنگناتا ہے
اسے لفظ نہیں چاہئے
ایک ناند۔۔۔ آٹا گوندھنے کے لئے
ایک تختہ۔۔۔ پیڑے بنانے کے لئے
ایک سلاخ تنور سے روٹی نکالنے کے لئے
نان بائی کا کام ختم کر لو تو میرے پاس آنا
یہاں کنارے پر سرکنڈوں کا جنگل آپ ہی آپ اگ آیا ہے
کچھ قلم میں نے تراشے ہیں
اور ایک بانسری۔۔۔
باقی سرکنڈوں سے ایک کشتی بنائی ہے
گڈریا، کسان، کاشتکار، موسیقار، آہن گر
سب تیار ہیں
کچھ آوازیں کشتی میں رکھ لی ہیں
مدرسے کی گھنٹی۔۔۔
ایک لوری
اور ایک دعا
ایک نئی زمین پر زندہ رہنے کے لئے اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہئے
نظم
لفظوں کے درمیان
ثروت حسین