سنا یہی ہے
کہ لفظ اب بولتے نہیں ہیں
جو مجھ پہ اب تک گزر چکا ہے
گزر رہا ہے
وہ لفظ در لفظ مر رہا ہے
میں ہر طرف سے
مرے ہوؤں میں گھرا ہوا ہوں
کبھی کبھی میں
ڈرا ڈرا سا
سبھی کو چپ چاپ دیکھتا ہوں
کبھی کبھی سر اٹھا کے مردے
اداس آنکھوں سے
دیکھتے ہیں
میں موت کی وادیوں میں جیسے اتر گیا ہوں
کہ جیسے میں آج مر گیا ہوں
نظم
لفظ نہیں بولتے
کمار پاشی