میں اکثر رات کی تنہائی سے یہ پوچھتا ہوں
کہ میرا آج میرے کل سے کیوں کر مختلف ہے
وہی میں ہوں وہی دیوانگی ہے
وہی وحشت وہی فکر معیشت
یہ بے چینی یہ ویرانی
مجھے کیوں کھائے جاتی ہے
مگر جذبوں سے عاری درد سے غافل یہ تنہائی
سدا خاموش رہتی ہے
مجھے لگتا ہے تنہائی
فقط بہری نہیں گونگی بھی ہے شاید
وہی گمبھیر سناٹا وہی ویران تاریکی
بھلا تنہائی بھی کچھ بولتی ہے
مگر بدلی سے اکثر
چاند اپنا سر نکالے
مجھے آواز دے کر پوچھتا ہے
کہ دیوانے تو اب تک جاگتا ہے
یہ کیسی فکر روز و شب
یہ کیسی گریہ زاری
سلگتی دھیمے دھیمے
راکھ بنتی رات
آخر کٹ ہی جائے گی
مگر تو کوئی تاجر ہے
نہ ساہوکار نہ بنیا
تو پھر کیوں آج کل میں بانٹتا ہے
درد کی دولت
یہ وہ سودا نہیں
جو ہر کسی کو راس آ جائے
کٹھن ہو یا پر آسائش مگر یہ رات گزرے گی
''شب سمور گزشت لب تنور گزشت
نظم
لب تنور
سلمان انصاری