ایک ہی پل کے لیے بیٹھ کے پھر اٹھ بیٹھی
آنکھ نے صرف یہ دیکھا کہ نشستہ بت ہے
یہ بصارت کو نہ تھی تاب کہ وہ دیکھ سکے
کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ
ایک لمحے کے لیے چشمے کی مانند بنا
پیچ کھاتے ہوئے یہ لہر اٹھی دل میں مرے
کاش! یہ جھاڑیاں اک سلسلۂ کوہ بنیں
دامن کوہ میں میں جا کے ستادہ ہو جاؤں
ایسی انہونی جو ہو جائے تو کیوں یہ بھی نہ ہو
خشک پتوں کا زمیں پر جو بچھا ہے بستر
وہ بھی اک ساز بنے ساز تو ہے ساز تو ہے
نغمہ بیدار ہوا تھا جو ابھی کان ترے
کیوں اسے سن نہ سکے سننے سے مجبور رہے
پردۂ چشم نے صرف ایک نشستہ بت کو
ذہن کے دائرۂ خاص میں مرکوز کیا
یاد آتا ہے مجھے کان ہوئے تھے بیدار
خشک پتوں سے جب آئی تھی تڑپنے کی صدا
اور دامن کی ہر اک لہر چمک اٹھی تھی
پڑ رہا تھا اسی تلوار کا سایہ شاید
جو نکل آئی تھی اک پل میں نہاں خانے سے
جیسے بے ساختہ انداز میں بجلی چمکے
لیکن اس دامن آلودہ کی ہر لہر مٹی
جل پری دیکھتے ہی دیکھتے روپوش ہوئی
میں ستادہ ہی رہا میں نے نہ دیکھا (افسوس!)
کیسے تلوار چلی کیسے زمیں کا سینہ
ایک لمحے کے لیے چشمے کی مانند بنا
دامن کوہ میں استادہ نہیں ہوں اس وقت
جھاڑیاں سلسلۂ کوہ نہیں پردہ ہیں
جس کے اس پار جھلکتا نظر آتا ہے مجھے
منظر انجان، اچھوتی سی دلہن کی صورت
ہاں تصور کو میں اب اپنے بنا کر دولہا
اسی پردے کے نہاں خانے میں لے جاؤں گا
کیسے تلوار چلی کیسے زمیں کا سینہ
دل بے تاب کی مانند تڑپ اٹھا تھا
ایک بے ساختہ انداز میں بجلی کی طرح
جل پری گوشۂ خلوت سے نکل آئی تھی!
زندگی گرم تھی ہر بوند میں آبی پاؤں
خشک پتوں پہ پھسلتے ہوئے جا پہنچے تھے!
میں بھی موجود تھا اک کرمک بے نام و نشاں
میں نے دیکھا کہ گھٹا شق ہوئی دھارا نکلی
برق رفتاری سے اک تیر کماں نے چھوڑا
اور وہ خم کھا کے لچکتا ہوا تھرا کے گرا
قلۂ کوہ سے گرتے ہوئے پتھر کی طرح
کوئی بھی روک نہ تھی اس کے لیے اس کے لیے
خشک پتوں کا زمیں پر ہی بچھا تھا بستر
اسی بستر پہ وہ انجان پری لیٹ گئی!
اور میں کرمک بے نام، گھٹا کی صورت
اسی امید میں تکتا رہا تکتا ہی رہا
اب اسی وقت کوئی جل کی پری آ جائے
بانسری ہاتھ میں لے کر میں گوالا بن جاؤں
جل پری آئے کہاں سے؟ وہ اسی بستر پر
میں نے دیکھا ابھی آسودہ ہوئی لیٹ گئی
لیکن افسوس کہ میں اب بھی کھڑا ہوں تنہا
ہاتھ آلودہ ہے، نم دار ہے، دھندلی ہے نظر،
ہاتھ سے آنکھوں کے آنسو تو نہیں پونچھے تھے!
نظم
لب جوئے بارے
میراجی