EN हिंदी
لال بیگ اڑ گیا | شیح شیری
lal bag uD gaya

نظم

لال بیگ اڑ گیا

رفیق سندیلوی

;

طعام گاہوں کی
بچی کھچی غذا پہ پل رہا تھا

نم زدہ شگافوں
گھن لگے درازوں میں

چھپا ہوا
وہ مطمئن تھا

غیر مرئی نالیوں سے
مین ہول تک

غلاظتیں بہا کے لانے والی
سست و تیز

ساری لائنوں میں گھومتا تھا
ایک روز

ہست کی گرہ میں
اس کی لانبی ٹانگ

اک انوکھے پیچ میں الجھ گئی
تو ٹیس درد کی اٹھی

وجود پھڑپھڑا گیا
جھٹک کے ٹانگ

پیچ سے نکال لی
تو ایک دم اسے لگا

کہ اس کی دسترس میں پر بھی ہیں
عجیب ثانیہ تھا

پانیوں کی ہولناک بو میں
کیچ کی امس میں

دونوں وقت مل رہے تھے
ہالۂ نفس میں

دھیرے دھیرے اس کے
صندلیں سنہری پر بھی ہل رہے تھے!

لال بیگ
جو شروع دن سے

موت اور زندگی
صفائی اور گندگی

نکاسیٔ وجود
خیر و شر

روانی و جمود کے معاملات میں گھرا ہوا تھا
خاک روبوں ،مہتروں کے ساتھ

کائناتی موریوں زمانی بد رووں میں
رہتے رہتے تنگ آ گیا تھا

راستے کے بیچ ہی سے مڑ گیا
اچانک ایک روز

لال بیگ اڑ گیا!!