EN हिंदी
کیا کروں | شیح شیری
kya karun

نظم

کیا کروں

جوشؔ ملیح آبادی

;

پھر دل میں درد سلسلہ جنباں ہے کیا کروں
پھر اشک گرم دعوت مژگاں ہے کیا کروں

پھر چاک چاک سینہ ہے آواز دوں کسے
پھر تار تار جیب و گریباں ہے کیا کروں

پھر اتصال گردن و خنجر ہے کیا کہوں
پھر اختلاط زخم و نمک داں ہے کیا کروں

پھر اک گرہ حریف نفس ہے کسے بتاؤں
پھر اک کھٹک رفیق رگ جاں ہے کیا کروں

سینے میں ایک دشنہ سا لیتا ہے کروٹیں
رگ رگ میں ایک آگ سی غلطاں ہے کیا کروں

جس چیز پر مدار تھا درمان زیست کا
وہ شے پھر آج درد کا عنواں ہے کیا کروں

پھر سر پر ابر دور جنوں ہے گھرا ہوا
پھر دل میں بوئے زلف پریشاں ہے کیا کروں

پھر عشق ناصبور کا پرتو ہے روح پر
پھر دل حضور عقل پشیماں ہے کیا کروں

بیتے دنوں کی یاد پر افشاں ہے کیا کروں
راتوں کی نم ہواؤں میں تاروں کی چھاؤں میں

بیتے دنوں کی یاد پرافشاں ہے کیا کروں
جس چاندنی کو کھوئے ہوئے مدتیں ہوئیں

پھر ذہن کے افق سے نمایاں ہے کیا کروں
تقدیر نے کبھی جو نکالا تھا اک جلوس

پھر جادۂ نفس پہ خراماں ہے کیا کروں
وہ غم کہ دے چکا ہوں جسے بارہا شکست

پھر دل سے جوشؔ دست و گریباں ہے کیا کروں