مری تری نگاہ میں
جو لاکھ انتظار ہیں
جو میرے تیرے تن بدن میں
لاکھ دل فگار ہیں
جو میری تیری انگلیوں کی بے حسی سے
سب قلم نزار ہیں
جو میرے تیرے شہر کی
ہر اک گلی میں
میرے تیرے نقش پا کے بے نشاں مزار ہیں
جو میری تیری رات کے
ستارے زخم زخم ہیں
جو میری تیری صبح کے
گلاب چاک چاک ہیں
یہ زخم سارے بے دوا
یہ چاک سارے بے رفو
کسی پہ راکھ چاند کی
کسی پہ اوس کا لہو
یہ ہے بھی یا نہیں، بتا
یہ ہے، کہ محض جال ہے
مرے تمہارے عنکبوت وہم کا بنا ہوا
جو ہے تو اس کا کیا کریں
نہیں ہے تو بھی کیا کریں
بتا، بتا،
بتا، بتا
نظم
کیا کریں
فیض احمد فیض