لکڑی کے بنے ہوئے آدمی
پانی میں نہیں ڈوبتے
اور دیواروں سے ٹانگے جا سکتے ہیں
شاید انہیں یاد ہوتا ہے
کہ آرا کیا ہے
اور درخت کسے کہتے ہیں
ہر درخت میں لکڑی کے آدمی نہیں ہوتے
جس طرح ہر زمین کے ٹکڑے میں کوئی کار آمد چیز نہیں ہوتی
جس درخت میں لکڑی کے آدمی
یا لکڑی کی میز
یا کرسی
یا پلنگ نہیں ہوتا
آرا بنانے والے اسے آگ کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں
آگ سب سے اچھی خریدار ہے
وہ اپنا جسم معاوضے میں دے دیتی ہے
مگر
آگ کے ہاتھ گیلی لکڑی نہیں بیچنی چاہیئے
گیلی لکڑی دھوپ کے ہاتھ بیچنی چاہیئے
چاہے دھوپ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو
لکڑی کے بنے ہوئے آدمی کو دھوپ سے محبت کرنی چاہیئے
دھوپ اسے سیدھا کھڑا ہونا سکھاتی ہے
میں جس آرے سے کاٹا گیا
وہ مقناطیس کا تھا
اسے لکڑی کے بنے ہوئے آدمی چلا رہے تھے
یہ آدمی درخت کی شاخوں سے بنائے گئے تھے
جب کہ میں درخت کے تنے سے بنا
میں ہر کمزور آگ کو اپنی طرف کھینچ سکتا تھا
مگر ایک بار
ایک جہنم مجھ سے کھنچ گیا
لکڑی کے بنے ہوئے آدمی
پانی میں بہتے ہوئے
دیواروں پر ٹنگے ہوئے
اور قطاروں میں کھڑے ہوئے اچھے لگتے ہیں
انہیں کسی آگ کو اپنی طرف نہیں کھنچنا چاہیئے
آگ جو یہ بھی نہیں پوچھتی
کہ تم لکڑی کے آدمی ہو
یا میز
یا کرسی
یا دیا سلائی
نظم
کیا آگ سب سے اچھی خریدار ہے
افضال احمد سید