سکینہ!
جب کہانی ختم ہوگی
خاک کی تاثیر بدلے گی
زمیں شعلہ بہ شعلہ
کھینچ لی جائے گی ان تاریک کونوں میں
جنہیں روشن زمانے
سطر مستحکم کے اندر فاصلوں میں رکھ گئے تھے
سکینہ!
جب بدن فرش ستم پر
دو قدم چلنے لگے گا
عصر بے ہنگام سے جیون
نئی دنیاؤں کے رستے نکالے گا
میان آب و گل
کس کو خبر
کیا کیا نکل آئے
ہمارے دیکھتے ان دیکھتے
کیا کیا بدل جائے
ہمارے ساتھ گرد و پیش
جتنی صورتیں ہیں
سب فنا کے رقص میں ہیں
اور یہ رقص فنا
اپنا ارادہ تو نہیں ہے
بیابانوں کی پیمائش
مرے چاک گریباں سے
زیادہ تو نہیں ہے!
نظم
کشتگان خنجر تسلیم را
فرخ یار