ہوائیں بھی
بادباں بھی میرے
سمندروں کے سکوت میں
بے لباس نسلوں کے ریزہ ریزہ جمال کے سب نشاں بھی میرے
مرے شکستہ وجود کی
لہلہاتی فصلوں پہ
گرنے والی شفیق شبنم میں ریت کے آسماں بھی میرے
قدیم لفظوں کے غم میں بے جان منظروں کے جہاں بھی میرے
ستارۂ دل کی وسعتوں میں
کھلے ہوئے جنگلوں کے اسرار ساعتوں کے گماں بھی میرے
مرے تصور کے بوجھ سے ٹوٹتی زمیں پر
ہلاک ہوتے ہوئے لبوں پر وفاؤں کے سب نشاں بھی میرے
گلاب چہروں پہ
سبز آنکھوں کے منظروں میں
نجات غم کی شکستہ خواہش کی راکھ میری بجھے ہوئے کارواں بھی میرے
جو کھو گئے
اور جو آنے والے دنوں کا دکھ ہے
وہی مرے بے وجود چہرے
ستارۂ دل کی بے پناہی کا پاسباں ہے
کچھ اور ہو بھی تو رائیگاں ہے
نظم
کچھ اور ہو بھی تو رائیگاں ہے
ایوب خاور