EN हिंदी
کرشن کنھیا | شیح شیری
krishn kanhayya

نظم

کرشن کنھیا

حفیظ جالندھری

;

اے دیکھنے والو
اس حسن کو دیکھو

اس راز کو سمجھو
یہ نقش خیالی

یہ فکرت عالی
یہ پیکر تنویر

یہ کرشن کی تصویر
معنی ہے کہ صورت

صنعت ہے کہ فطرت
ظاہر ہے کہ مستور

نزدیک ہے یا دور
یہ نار ہے یا نور

دنیا سے نرالا
یہ بانسری والا

گوکل کا گوالا
ہے سحر کہ اعجاز

کھلتا ہی نہیں راز
کیا شان ہے واللہ

کیا آن ہے واللہ
حیران ہوں کیا ہے

اک شان خدا ہے
بت خانے کے اندر

خود حسن کا بت گر
بت بن گیا آ کر

وہ طرفہ نظارے
یاد آ گئے سارے

جمنا کے کنارے
سبزے کا لہکنا

پھولوں کا مہکنا
گھنگھور گھٹائیں

سرمست ہوائیں
معصوم امنگیں

الفت کی ترنگیں
وہ گوپیوں کے ساتھ

ہاتھوں میں دیئے ہاتھ
رقصاں ہوا برج ناتھ

بنسی میں جو لے ہے
نشہ ہے نہ مے ہے

کچھ اور ہی شے ہے
اک روح ہے رقصاں

اک کیف ہے لرزاں
ایک عقل ہے مے نوش

اک ہوش ہے مدہوش
اک خندہ ہے سیال

اک گریہ ہے خوش حال
اک عشق ہے مغرور

اک حسن ہے مجبور
اک سحر ہے مسحور

دربار میں تنہا
لاچار ہے کرشنا

آ شیام ادھر آ
سب اہل خصومت

ہیں در پئے عزت
یہ راج دلارے

بزدل ہوئے سارے
پردہ نہ ہو تاراج

بیکس کی رہے لاج
آ جا میرے کالے

بھارت کے اجالے
دامن میں چھپا لے

وہ ہو گئی ان بن
وہ گرم ہوا رن

غالب ہے دریودھن
وہ آ گئے جگدیش

وہ مٹ گئی تشویش
ارجن کو بلایا

اپدیش سنایا
غم زاد کا غم کیا

استاد کا غم کیا
لو ہو گئی تدبیر

لو بن گئی تقدیر
لو چل گئی شمشیر

سیرت ہے عدو سوز
صورت نظر افروز

دل کیفیت اندوز
غصے میں جو آ جائے

بجلی ہی گرا جائے
اور لطف پر آئے

تو گھر بھی لٹا جائے
پریوں میں ہے گلفام

رادھا کے لیے شیام
بلرام کا بھیا

متھرا کا بسیا
بندرا میں کنھیا

بن ہو گئے ویراں
برباد گلستاں

سکھیاں ہیں پریشاں
جمنا کا کنارا

سنسان ہے سارا
طوفان ہیں خاموش

موجوں میں نہیں جوش
لو تجھ سے لگی ہے

حسرت ہی یہی ہے
اے ہند کے راجا

اک بار پھر آ جا
دکھ درد مٹا جا

ابر اور ہوا سے
بلبل کی صدا سے

پھولوں کی ضیا سے
جادو اثری گم

شوریدہ سری گم
ہاں تیری جدائی

متھرا کو نہ بھائی
تو آئے تو شان آئے

تو آئے تو جان آئے
آنا نہ اکیلے

ہوں ساتھ وہ میلے
سکھیوں کے جھمیلے