EN हिंदी
کوسا دودھ | شیح شیری
kosa dudh

نظم

کوسا دودھ

شہزاد حسن

;

تو یہ دودھ کوسا ہے!
یہ دودھ ہے اور کوسا ہے

جس سے بدن کی نسیں اونگھ جاتی ہیں
جس سے مرے دل کی باقاعدہ دھڑکنوں میں

اضافے کی صورت نہیں
یہ وہی دودھ ہے جس کو فرہاد کی گرمیٔ شوق نے

بیستوں کی سیہ چوٹیوں سے اتارا
تو اس کے لہو کی حرارت کا جویا ہوا

پھر بھی کوسا رہا
یہ وہی دودھ ہے

چاندنی بن کے جو گرمیوں کے کسی ماہ کی چودھویں رات کو
آسماں پر زمیں پر دلوں میں نگاہوں میں

بہتا ہے لیکن
کسی کے لبوں کو جلاتا نہیں ہے

یہ سورج کا سایہ ہے لاوا نہیں ہے!
تم اپنے پیالے کو بھٹی میں رکھ دو!

کہ یہ دودھ ابلتا رہے
یہ پیالہ بھی ڈھل جائے

یہ دودھ جل جائے
اور اس طرح مشک نافہ بنے

جس کی خوشبو کی طاقت نہ لائے کوئی شخص بھی
جس کی خوشبو سے ہر مغز سے خون بہنے لگے!