EN हिंदी
کولاژ | شیح شیری
kolaz

نظم

کولاژ

شہناز نبی

;

ساری چلمنیں
تیلیوں کی شکل میں بکھر چکی ہیں

کمزور دھاگے
کہانیاں بننے سے عاری

مومی شمعیں پگھل پگھل کر زمیں بوس
پروانے راستہ بھٹک چکے ہیں

بے رنگ اوس کے دھبے
جا بجا آنگنوں میں پھیلے ہیں

سورج نے آنکھیں نہیں کھولیں
قطرہ قطرہ پی رہی ہے گھاس

چاند کی جھوٹی شراب
خاکستری یادوں کی بارہ دری میں

ان چاہے قدموں کی بازگشت
ابھرتی ڈوبتی رہتی ہے

زبان کی نوک پر زہر کی چند بوندیں
میدان حرب سے

خبر آنے تک
یا پھر اس انگشتری کے کھو جانے تک