خیر
کوئی ربط ہی نہیں
وقت کی طویل ڈور نے
بے ارادہ ایک کر دیا
صبح و شام گھوم گھوم کر زمیں
گرفت اور سخت اور سخت کر گئی
جانے آج کیوں وہی
دھاگے میری شاہ رگ میں
دور تک دھنسے ہوئے
وہ سرا ہی میں نے کھو دیا
جس سے لوگ
الجھے سلجھے تانے بانے کھول کر
یوں الگ نکل گئے
جیسے وقت کچھ نہیں
وہ سارے راستے
جن پہ گامزن رہے
وہ سارے ہم سفر
جو ساتھ ساتھ چل رہے تھے
کچھ نہیں
کوئی کچھ نہیں
نظم
کوئی کچھ نہیں؟
قاضی سلیم